پی آئی اے کی آخری پرواز یا پاکستان کی نئی پرواز؟ نجکاری کے دور میں قومی فضائی خودمختاری کا فیصلہ کن لمحہ

تحریر: ثاقب برجیس

ہر قوم کی تاریخ میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب تاخیر سے کیے گئے فیصلے تقدیر کا رخ متعین کر دیتے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کی دوسری کوشش محض حصص کی فروخت نہیں، بلکہ ریاستی بصیرت، ادارہ جاتی دیانت، اور قومی عزتِ نفس کا امتحان ہے۔ اب جب کہ پانچ بڑے سرمایہ کار ادارے پی آئی اے کے 51 سے 100 فیصد حصص اور انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سامنے آ چکے ہیں، سوال یہ نہیں کہ یہ ایئرلائن بیچی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ریاست پاکستان اُس تمام نظامِ بدانتظامی کا سامنا کرنے کو تیار ہے جس نے اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا۔

پی آئی اے ایک محض تجارتی ادارہ نہیں، بلکہ ریاستی صلاحیت، گورننس کی اہلیت، اور قومی وسائل کی حفاظت کا پیمانہ ہے۔ آج جب ہمارا ہوائی اڈوں کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جب ہر وطن واپس آنے والے پاکستانی کو بے توقیری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور جب ہماری سول ایوی ایشن اتھارٹی نااہلی اور تضادِ مفاد کی علامت بن چکی ہے، تو یہ بحران صرف انتظامی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔

کبھی پی آئی اے کا لندن سیکٹر سالانہ دو سو ملین پاؤنڈ سے زیادہ کی ٹکٹیں فروخت کرتا تھا۔ یہ محض اعدادوشمار نہیں تھے، بلکہ اُن جذبات، رشتوں، اور امیدوں کی نمائندگی تھی جو دنیا بھر میں بسے پاکستانیوں کو وطن سے جوڑے رکھتے تھے۔ آج وہی راستہ بے آواز دفن ہو چکا ہے۔ نہ منصوبہ بندی، نہ پالیسی، نہ حکومتی دلچسپی—صرف خاموشی اور سقوط۔

پاکستان سے جانے والی بین الاقوامی پروازوں کا 62 فیصد حصہ صرف خلیجی ممالک کا ہے، لیکن ان ایئرلائنز کو پاکستان کے تقریباً ہر ہوائی اڈے سے کھلی اجازت دے دینا ایک ایسی سستی حکمتِ عملی ہے جو کسی بھی ریاستی وقار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ نہ کوئی دو طرفہ معاہدوں کی پاسداری، نہ کوئی سلاٹ کنٹرول، اور نہ ہی قومی فضائی پالیسی کا کوئی بنیادی ڈھانچہ۔ ہم نے اپنی فضائیں، اپنے نرخ، اور اپنا اختیار—سب کچھ بنا کسی مزاحمت کے دے دیا۔

ادھر عام پاکستانی مسافر کو درپیش اذیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آج خلیج تک کا ٹکٹ یورپ یا مشرق بعید کے برابر قیمت پر ملتا ہے۔ حج کے ایام میں تو جیسے روحانی فریضہ ایک معاشی بوجھ بن جاتا ہے۔ ہوائی اڈے، جو کسی قوم کا چہرہ ہوتے ہیں، بدانتظامی، بدبو دار واش رومز، اور جعلی مصنوعات بیچنے والی دکانوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ امیگریشن کے نظام میں نہ کوئی ای گیٹ ہے، نہ بائیومیٹرک سہولت، نہ کسی شہری کو عزت دینے کا جذبہ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی یا ریذیڈنسی رکھنے والے پاکستانیوں کو بھی قطاروں، چھان بین، اور غیرضروری سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر شرمناک حقیقت یہ کہ خلیجی ایئرلائنز کے اپنے سیکیورٹی اہلکار پاکستان میں ہوائی جہاز کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں—جیسے وہ پاکستان کی سرزمین نہ ہو، بلکہ ان کی کسی چھاؤنی کا حصہ ہو۔

اس پورے زوال کے مرکز میں ہے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)—جو کہ ایک آزاد، پیشہ ور، اور غیر جانبدار ریگولیٹری ادارہ ہونے کے بجائے، آج ایک تضادِ مفاد کا مظہر بن چکی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ترقی یافتہ ریاست اپنے ریگولیٹر کو بیک وقت ٹھیکیدار، ہوائی اڈہ آپریٹر، دکاندار، اور پالیسی ساز نہیں بناتی۔ لیکن پاکستان میں یہ سب کچھ نہ صرف ہو رہا ہے بلکہ اسے معمول تصور کیا جا رہا ہے۔

سی اے اے کی قیادت اکثروبیشتر ان افراد کے ہاتھ میں رہی ہے جن کا تجربہ لڑاکا طیارے اڑانے میں تو قابلِ فخر ہو سکتا ہے، لیکن کمرشل ایوی ایشن، کارپوریٹ مینجمنٹ، یا ہوابازی پالیسی سازی میں قطعاً غیر متعلق ہے۔ سول ایوی ایشن ایک کاروباری، تکنیکی، اور صارف پر مبنی شعبہ ہے—جسے جہاز اُڑانے کا نہیں، نظام چلانے کا ہنر درکار ہے۔

پی آئی اے کے عملے کا رویہ، طیاروں کی صفائی، عملے کی تربیت، اور کسٹمر سروس کا معیار—سب کچھ پچھلی دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ اور اب ہم چاہتے ہیں کہ بغیر ان بنیادی ڈھانچوں کی اصلاح کیے، اسے کسی سرمایہ دار کے ہاتھ بیچ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیں؟

سی اے اے کی قیادت اکثروبیشتر ان افراد کے ہاتھ میں رہی ہے جن کا تجربہ لڑاکا طیارے اڑانے میں تو قابلِ فخر ہو سکتا ہے، لیکن کمرشل ایوی ایشن، کارپوریٹ مینجمنٹ، یا ہوابازی پالیسی سازی میں قطعاً غیر متعلق ہے۔ سول ایوی ایشن ایک کاروباری، تکنیکی، اور صارف پر مبنی شعبہ ہے—جسے جہاز اُڑانے کا نہیں، نظام چلانے کا ہنر درکار ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری صرف تب کامیاب ہو سکتی ہے جب اس کے اردگرد کا پورا ماحول یعنی— ریگولیٹر سے لے کر رن وے تک—اصلاح کے عمل سے گزرے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک بوسیدہ ادارے کی علامتی نیلامی ہو گی، نہ کہ اس کی بحالی۔

پقائدانہ صلاحیت کا مطلب صرف بچانا نہیں، بلکہ وہ دوبارہ زندہ کرنا ہے جو کبھی فخر کی علامت تھا۔

یہ وہ لمحہ ہے جب ہم صرف PIA کو نہیں، بلکہ پاکستان کو پھر سے اُڑنے کا موقع دے سکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here